Social Icons

Pages

Tuesday, February 23, 2016

The Only Democratic Party In Pakistan (Director Media Jamaat E Islami)

جماعت اسلامی کی داخلی جمہوریت، پلڈاٹ رپورٹ اور صحافیوں کے تبصرے
پلڈاٹ نے پاکستان کی 8 بڑی سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت کے بارے میں رپورٹ پیش کی ہے اور اس میں جماعت اسلامی کو پہلے نمبر پر قرار دیا ہے ۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال بھی جماعت اسلامی ہی پہلے نمبر پر رہی تھی۔ پلڈاٹ اس وقت پاکستان میں جمہوریت، پالیمانی نظام اور انتخابات کے جائزے کے حوالے سے سب سے معتبر اور غیرجانبدار ادارہ ہے اور اس کی رپورٹس اپنی اسی غیرجانبداری کی وجہ سے ہر دائرے میں قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہیں۔ اگرچہ پلڈاٹ رپورٹ میں جماعت پہلے نمبر پر رہی ہے مگر یہ ایک پہلے سے معلوم حقیقت ہے، ہر ذی شعور پاکستانی اس بارے میں جانتا ہے۔ جماعت بھلے سیاسی میدان میں بوجوہ کامیاب نہیں ہے اور اسے وہ عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی جو کہ اپنی خوبیوں کی وجہ سے ہونی چاہیے مگر اپنی تنظیم، داخلی جمہوریت، امانت و دیانت، احتسابی نظام اور خدمت کی وجہ سے دوسری جماعتوں میں نہ صرف ممتاز ہے بلکہ ان حوالوں سے بطور پارٹی دور تک اس کا کوئی مقابل نہیں ہے۔
پلڈاٹ جیسا ادارہ ایسی رپورٹ پیش کرے اور ایسی رپورٹ مسلسل آنے لگیں تو بھلے سیاسی مقبولیت حاصل نہ ہو مگر پڑھے لکھے طبقے بالخصوص نوجوانوں اور انٹیلی جنیشیا میں ایک تاثر ضرور ابھرتا اور متبادل ضرور ذہن میں آتا ہے اور دیگر کئی عوامل اس لے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ میرے خیال میں یہی وہ چیز ہے جو ہمارے بعض کرم فرمائوں سے ہضم نہیں ہوتی۔ شاید کوئی ان دیکھا یا انجانا خوف ہے کہ وہ جماعت اچھائی کو بھی برائی بنا کر پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ کل یہ رپورٹ میڈیا میں آئی اور رات مختلف ٹی وی چینلز پر اس حوالے سے تبصرے ہوئے۔ ایک معروف ٹی وی چینل پر دو معروف اینکرز اس رپورٹ پر تبصرہ کر رہے تھے اور دونوں کا کہنا یہ تھا کہ جماعت کو پہلے نمبر پر قرار دیتے ہوئے پلڈاٹ سے ضرور کوئی غلطی ہوئی ہے، ان کا دل تو اس رپورٹ کو نہیں مان رہا۔ بنیادی اعتراض یہ تھا کہ جماعت میں تو امیدواران کا ہی معلوم نہیں ہوتا کہ کون امیدوار ہے اور الیکشن لڑ رہا ہے۔ اعتراض سے ہی اس کی حقیقت واضح ہے اور میرا نہیں خیال کہ اس سے کوئی بودا اور بے معنی اعتراض بھی ہو سکتا ہے، اس پائے کے صحافیوں سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ اتنی بنیادی بات کو نہ سمجھتے ہوں۔ بھلا یہ کسی انتخاب میں ہوتا ہے کہ امیدواران ہی نہ ہوں اور انتخاب بھی ہو جائے؟ پھر کیا جماعت کا ابھی حال ہی میں امارت کا انتخاب نہیں ہوا اور اس میں نام معلوم نہیں تھے؟ کیا انھی ناموں میں سے ایک نئے امیر کا انتخاب نہیں ہوا؟ اور کیا ان پائے کے صحافیوں کو اس کی خبر نہیں ہو سکی۔ کیا یہ معلوم حقیقت نہیں ہے کہ جماعت میں موروثیت نہیں ہے، یہ دیگر تمام پارٹیوں کی طرح کوئی خاندانی جماعت نہیں ہے اور اس کے پانچوں امرا مختلف جگہوں سے منتخب ہوئے، آنے والے کا گزشتہ کیا پچھلے کسی امیر سے بھی کوئی رشتہ داری کیا علاقے کا بھی تعلق نہیں ہے۔ اس معلوم حقیقت کے ہوتے ہوئے بھی بھلا کوئی ایسا اعتراض کر سکتا ہے؟
جماعت قیام سے لے کر اب تک اپنے لکھے دستور کی پابند ہے، انتخاب امیر کا واضح طریق کار اس میں لکھا ہوا موجود ہے۔ ملک میں آمریت ہو یا جمہوریت ، حالات سازگار ہوں یا نہیں، جماعت کی تنظیم اور انتخابی نظام ایک لمحے کے لیے متاثر ہوا نہ کبھی اس سے انحراف ہوا ہے۔ مرکزی مجلس شوری انتخاب امیر و مجلس شوری کے لیے ایک مرکزی چیف الیکشن کمشنر اور ان کے ساتھ صوبائی الیکشن کمیشن کا تقرر کرتی ہے۔ تمام ارکان الیکٹورل کالج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان تمام ارکان (اس وقت 35 ہزار سے زائد) کو بیلٹ پیپر جاری ہوتا ہے اور وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، امیر اور اپنی مجلس شوری کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہی عمل صوبے، اضلاع ، تحصیل اور یونین کونسل میں ہوتا ہے اور ہر سطح کی قیادت منتخب ہو کر سامنے آتی ہے۔ مرکزی امارت سمیت ہر سطح کے انتخاب میں 3 نام معلوم ہوتےہیں، متعلقہ شوری ان ناموں کو تجویر کرتی ہے۔ مگر کوئی رکن ان تین کے علاوہ بھی کسی رکن جماعت کو ووٹ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ دستور اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس طرح ہر رکن ایک لحاظ سے امیر بننے کا اہل ہے اور اسے ووٹ دیا جا سکتا ہے۔ ایک جماعت کیا، اس کی قائم کردہ ہر برادر تنظیم میں یہ عمل ہوتا ہے؟ طلبہ تک اپنی قیادت کا انتخاب خود کرتے ہیں، اور اس میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں ہوتی۔ کیا کسی ایک بھی دوسری جماعت میں ایسا انتخابی نظام اور کوئی ایسی مثال موجود ہے اور کوئی خاندان کے خلاف جرات کا ارتکاب کر دے تو اس پارٹی میں رہ سکتا ہے؟ اور کیا اتنے بڑے صحافی اس حقیقت سے بےخبر ہیں؟ ایک اور امتیازی وصف اس نظام کا یہ ہے کہ تمام امرا کی مدت مقرر ہے، امیر جماعت 5 سال ، امیر صوبہ 3 سال اور امیر ضلع 2 سال، اس میں پھر امیر صوبہ اور امیر ضلع کے لیے قید ہے کہ وہ دو دفعہ سے زیادہ منتخب نہیں کی جا سکتے ؟ کیا یہ پابندی کسی دوسری جماعت میں موجود ہے؟
جماعت کے مقابل عوامی نیشنل پارٹی کی مثال دی گئی اور کہا یہ گیا کہ جماعت سے تو زیادہ اس میں جمہوریت ہے۔ سبحان اللہ کیا کہنے۔ مثال ہی اپنی حقیقت بیان کر رہی ہے۔ مزید اس پر کیا کہا جائے۔ باپ، بیٹا، بیوی اور پھر بیٹا، یہ ہے وہ مثال جسے جماعت اور اس کے شفاف نظام کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے۔ مرکز میں یہ حال ہے تو نچلی سطح پر جمہوریت کا کیا حال ہوگا؟ پھر یہ کہا گیا کہ کیا پلڈاٹ نے جماعت اسلامی کے انتخابی عمل کا جائزہ لیا ہے جو پہلے نمبر پر قرار دیا ہے؟ یہ اعتراض بھی تب ہو سکتا تھا جب دیگر 7 جماعتوں کے نظام کا جائزہ لیا جاتا اور جماعت اس جائزے میں رہ جاتی۔ ظاہر ہے کہ کسی پارٹی کے انتخابی عمل کا جائزہ نہیں لیا گیا کہ بیلٹ پیپر گنے جا رہے ہوں اور پلڈاٹ کے نمائندے وہاں موجود ہوں۔ پوائنٹس کے ایک نظام اور جائزے کے مطابق انھوں نے پوائنٹس دیے جس میں جماعت کو پہلے نمبر پر پایا۔ ویسے جماعت کے انتخابی نظام کا تو کسی وقت بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے مگر مقابل جماعتوں میں تو سرے الیکشن ہی نہیں ہوتا تو کس چیز کا جائزہ لیں گے؟
جماعت سیاسی طور پرمقبول نہیں، اس میں دیگر ہزار خامیاں ہوسکتی ہیں، قیادت سے پالیسی تک کوئی بھی اعتراض وارد ہوسکتا ہے اور بہانے بہانے سے میڈیا میں کھلے طریقے سے اس کا اظہار بھی ہوتا ہے مگر کوئی خوبی نظر آئے اور پلڈاٹ جیسا معتبر ادارہ پیش کرے تو اسے بھی اپنی قلبی و ذہنی وابستگی اور نظریاتی مخالفت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔ کوئی بڑا صحافی ہو تو یہ بات اور بھی ضروری ہے، ساتھ میں غیرجانبداری پر اصرار ہو تو اور زیادہ ضروری۔

No comments:

Post a Comment

 

Sample text

Sample Text

Sample Text